- Model: ibe-09
- SKU: ibe-09
- ISBN: ibe-09
- MPN: ibe-09
Masnavi i Manavi by E. H. Whinfield
Author: Maulana Jalal al-Din Muhammad Rumi
The Masnavi, or Masnavi-i Ma'navi (Persian: مثنوی معنوی), also written Mesnevi, Mathnawi, or Mathnavi, is an extensive poem written in Persian by Jalal al-Din Muhammad Balkhi also known as Rumi, the celebrated Persian Sufi poet. It is one of the best known and most influential works of Sufism. The Masnavi is a series of six books of poetry that together amount to around 25,000 verses or 50,000 lines. It is a spiritual text that teaches Sufis how to reach their goal of being truly in love with God. The title Masnavi-i Ma'navi (Persian: مثنوی معنوی) means "The Spiritual Couplets". The Masnavi is a poetic collection of anecdotes and stories derived from the Quran, hadith sources, and everyday tales. Stories are told to illustrate a point and each moral is discussed in detail. It incorporates a variety of Islamic wisdom but primarily focuses on emphasizing inward personal Sufi interpretation. In contrast to Rumi's Diwan, the Masnavi is a relatively "sober" text. It explains the various dimensions of spiritual life and practice to Sufi disciples and anyone who wishes to ponder the meaning of life. The Masnavi was started by the Rumi during the final years of his life. He began dictating the first book around the age of 54 around the year 1258 and continued composing verses until his death in 1273. The sixth and final book would remain incomplete. It is documented that Rumi began dictating the verses of the Masnavi at the request of his favourite disciple, Husam al-Din Chalabi, who observed that many of Rumi’s followers dutifully read the works of Sana’i and ‘Attar. Thus, Rumi began creating a work in the didactic style of Sana’i and ‘Attar to complement his other poetry. These men are said to have met regularly in meetings where Rumi would deliver the verses and Chalabi would write them down and recite them back to him. Each book consists of about 4,000 verses and contains its own prose introduction and prologue. Some scholars suggest that in addition to the incomplete Book 6, there might have been a seventh volume.
مثنوی مولانا رُوم" جو "مثنوی مولوی معنویسے بھی معروف ہے یہ کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کوپیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ باقی ایں گفتہ آید بی گماں در دل ہر کس کہ باشد نور جاں اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کیلئے نے بہت لوگوں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے اے ضیا الحق حسام الدیں سعید دولتت پائندہ عمرت بر مزید مثنوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ، فارسی کی کسی کتاب کو آج تک نہیں ہوئی۔ صاحب مجمع الفصحا نے لکھا ہے کہ ایران میں چار کتابیں جس قدر مقبول ہوئیں ، کوئی نہیں ٰہوئی۔ شاہ نامہ گلستان مثنوی روم دیوان حافظ ان چاروں کتابوں کا موازنہ کیا جائے تو مقبولیت کے لحاظ سے مثنوی کو ترجیح ہوگی۔ مقبولیت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ علما و فضلا نے مثنوی کو جس قدر اہمیت دی اور کسی کتاب کو نہیں دی۔ کشف الظنون ایک مشہور شرح ہے جس کے بعد بھی کئی شرحیں لکھی گئی مثلا شرح محمد افضل الہ آبادی ، و ولی محمد ، و عبد العلی بحر العلوم و محمد رضا وغیرہ وغیرہ ۔ چند شرحیں جو مثنوی روم کی لکھی گئی اور جن کا نقشہ کشف الظنون سے ماخوذ ہے مندرجہ ذیل ہیں۔ مولی مصطفی بن شعبان سودی کی شرح چھ جلدوں میں ہے شیخ اسماعیل انقروی یہ بھی چھ جلدوں میں ہے کمال الدین خوارزمی کی کنوز الحقائق عبداللہ بن محمد رئیس الکتاب درویش علمی۔ یہ جلد اول کی شرح ہے۔ یوسف المتوفی نے ۹۵۳ میں مثنوی کا خلاصہ کیا تھا ، یہ اس کی شرح ہے۔ طریفی حسن چلپی کی کاشف الاسرار ، بعض اشعار کی شرح ہے۔ علاؤ الدین مصنفک حسین واعظ ، خلاصہ مثنوی کی شرح ہے ، اس کے دیباچے میں دس مقالے ہیں جس میں اصطلاحات تصوف اور فرقہ مولویہ کے مشائخ کے حالات ہیں۔ شیخ عبدالمجید سیواسی ، سلطان احمد کے حکم سے تصنیف ہوئی۔ علائی بن یحیی واعظ شیرازی اسماعیل ودہ کی ازھار مثنوی۔ صرف احادیث و آیات قرآنی و الفاظ مشکلہ کی شرح ہے۔[1] کلید مثنوی، اشرف علی تھانوی نے 24 جلدوں میں اردو زبان میں شرح لکھی ہے۔ معلومات و رموز و حقائق تصوف کا جو سمندر مثنوی میں پوشیدہ ہے اس کی تفصیلات کے لئے یہ شرح بے نظیر ہے۔ اس کو ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے چھپا ہے۔