Menu
Your Cart
بسم اللہ الرحمن الرحیم

Kashf ul Mahjoob, کشف المحجوب

Kashf ul Mahjoob, کشف المحجوب
Kashf ul Mahjoob, کشف المحجوب
  • Model: ibu-64
  • SKU: ibu-64
  • ISBN: ibu-64
  • MPN: ibu-64
Sold: 0
Product Views: 1541
Rs.35/-

Kashf ul Mahjoob کشف المحجوب

Author: حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ

میں سوچتا تھا کہ جب میں نے روحانی تعلیم کا راستہ چن لیا تو مجھے صوفی طریقے کے مطابق وہ لباس پہننا پڑا جس کہ کھردرے ٹاٹ کا بنا تھا اور بہت معمولی سامان کے ساتھ زندگی گزارنا پڑی کہ نبی کریم نے اپنی زندگی نہایت سادگی اور کم سامان سے بسر کی تھی اور ان کا کل اثاثہ انتہائی کم تھا ان کا معایر زندگی اپنے زمانے کے سب سے نچلے طبقے یعنی غلاموں کی سطح پر تھا یہی بات صوفی اپناتے ہیں اور اپنا معیار زندگی بہت سادہ اور معاشرے کے کمزور اور محروم طبقے کی سطح پرلاتے ہیں۔ اس موقع پر میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ جب میں نے اتنی کم سطح پر رہنا ہے تو مجھے چپ چاپ ایک تنہا جگہ پر یاد الہی کرنا چاہیئے لوگوں سے میل ملاب کی کیا ضرورت ہے مجھے یہ سوال تنگ کرتا تھا کہ صوفی لوگوں سے راہ و رسم کیوں رکھتے ہیں ۔ میں اس سے پہلے بھی ایک مسئلے سے دوچار ہوا تھا اور میں نے کئی دن حضرت شیخ ابو یزید کے مزار پر کئی دن تفکر کیا تھا تو مجھے اپنے سوال کا جواب ملا تھا اس دفعہ بھی میں نے حضرت شیخ ابو یزید رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ میں جا کر کے اس پر غور وفکر کرنا شروع کیا تین ماہ تک میں ان کی خانقاہ میں اس معاملے کے بارے غور و فکر کرتا رہا۔ ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا رہا۔ اور تیس دفعہ وضو کرتا رہا۔ لیکن میری یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا اور راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا۔ وہاں لوگوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ میرے پاس اس وقت موٹے کھُردرے ٹاٹ کی ایک گودڑی تھی۔ اور وہی میں نے پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا۔ اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔ ان لوگوں نے مجھے بہت حیرت کی نظر سے دیکھا۔ اور اپنے خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا۔ میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا۔ اور ایک سُوکھی روٹی اور وہ بھی روکھُی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارہ میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ چوبارہ پر سے وہ مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے کھانے لگے۔ اور چھلکے میری طرف پھینکتے رہے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میرا تمخسر اڑانے پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھا، بارِ خدایا، اگر مجھے صبر دے اور توفیق دے کہ میں ان حرکات کو برداشت کروں۔ میں اسے خداوند تعالٰیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا، اس لیے جس قدر وہ طعن وملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے مجھے اپنے اس مسئلے کا، جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا جواب مل گیا۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ صوفیا کرام دوسرے لوگوں کے درمیان درمیان کیوں رہتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ کیوں کہ تب مجھے معلوم ہوا کہ سچی انکساری لوگوں کے درمیان رہنے سے حاصل ہوتی ہے وگرنہ آدمی غرور میں متبلا ہوتا ہے کہ میں کوئی خاص آدمی ہوں جس نے اللہ کے لئے دوسرے لوگوں کو چھوڑ دیا ہے اور دوسرے کے طعن سہنے سے انسان میں اعلی ظرفی اور اپنے نصب العین سے وابستگی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ جان جاتا ہے کہ لوگوں کی ملامت سہنا اس لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی خاص شخصیت نہیں بلکہ عام اور عاجز انسان ہیں اور ہم نے جو طرز زندگی اپنایا ہے اس کامقصد دوسروں سے الگ ہونا نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ رہ کر اپنے طرز فکر کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔

 

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good